Posts

معاشیات کی تعریف

  معاشیات ایک سماجی سائنس ہے جو سامان اور خدمات کی پیداوار، تقسیم اور استعمال سے متعلق ہے۔ یہ اس بات کا مطالعہ ہے کہ معاشرے اپنی لامحدود ضروریات اور خواہشات کو پورا کرنے کے لیے کس طرح قلیل وسائل مختص کرتے ہیں۔ معاشیات کے شعبے کی ایک طویل تاریخ ہے، جو یونان جیسی قدیم تہذیبوں سے ملتی ہے۔ روم اور چین۔ تاہم یہ صرف 18 ویں صدی میں ہی تھا کہ معاشیات مطالعہ کے ایک الگ شعبے کے طور پر ابھری، ایڈم اسمتھ کی ویلتھ آف نیشنز کی اشاعت کے ساتھ۔ تب سے، معاشیات ایک انتہائی پیچیدہ اور متنوع ڈسپلن میں تیار ہوئی ہے، جس میں مختلف ذیلی شعبوں جیسے مائیکرو اکنامکس، میکرو اکنامکس، رویے کی معاشیات، اور بہت سے دوسرے شامل ہیں۔ معاشیات کی تعریف: تناظر اور سیاق و سباق کے لحاظ سے معاشیات کی تعریف مختلف طریقوں سے کی جا سکتی ہے۔ تاہم، اس کے بنیادی طور پر، معاشیات اس بات کا مطالعہ ہے کہ کس طرح افراد، فرمیں اور معاشرے اپنی ضروریات اور خواہشات کو پورا کرنے کے لیے محدود وسائل مختص کرنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ معاشیات کی تعریف کے چند اہم عناصر درج ذیل ہیں: قلت: معاشیات قلت کے بنیادی تصور پر مبنی ہے، جس کا مطلب ہے کہ وسائل م

معاشیات کیا ہے

معاشیات ایک سماجی سائنس ہے جو سامان اور خدمات کی پیداوار، تقسیم اور استعمال سے متعلق ہے۔ یہ مطالعہ کرتا ہے کہ کس طرح افراد، کاروبار اور حکومتیں وسائل مختص کرنے کے فیصلے کرتی ہیں۔ معاشیات ایک وسیع میدان ہے جس میں مائیکرو اکنامکس، میکرو اکنامکس اور بین الاقوامی معاشیات شامل ہیں۔ اس مضمون میں، ہم معاشیات کے بنیادی تصورات، یہ کیسے کام کرتے ہیں، اس کے بنیادی نظریات، اور حقیقی زندگی میں اس کے اطلاق پر بات کریں گے۔ معاشیات کے بنیادی تصورات   قلت: قلت معاشیات کا بنیادی تصور ہے۔ اس سے مراد لامحدود ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وسائل کی محدود دستیابی ہے۔ قلت کی وجہ سے، لوگوں کو بہترین ممکنہ طریقے سے وسائل مختص کرنے کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ یہ معاشی فیصلہ سازی کی بنیاد ہے۔ مواقع کی قیمت: مواقع کی قیمت اگلے بہترین متبادل کی قیمت ہے جو فیصلہ کرنے کے بعد چھوڑ دی جاتی ہے۔ یہ بہترین متبادل کے لحاظ سے انتخاب کی قیمت ہے جسے منتخب کیا جا سکتا تھا لیکن نہیں تھا۔ اقتصادیات میں مواقع کی قیمت ایک اہم تصور ہے کیونکہ یہ اس بات کی وضاحت کرنے میں مدد کر

پاکستانی نظام تعلیم

تعلیم معاشرے کے ہر فرد کابنیادی حق ہے۔اورہرقوم پرلازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دور کے تقاضوں اوراپنی سماجی,سیاسی اورثقافتی ضروریات کومدنظررکھتے ہوے تعلیمی نظام وضع کریں۔بدقسمتی سے پاکستان کوآزادی ملنے کے بعد سے لیکر آج تک برسراقتدارطبقات نے نہ تو کبھی یہ ضورت محسوس کی اور نہ اس کےلے کسی بھی سطح پر کوءی ٹھوس قدم اٹھایاگیا۔بلکہ یہاں پر نوابادیاتی دور کے اس نظام تعلیم کو جاری رکھا گیا جسکا مقصدقوم کومحتلف سیاسی,سماجی اور معاشی طبقات میں تقسیم درتقسیم کرکے سامراجی مفادات کا حصول تھا۔ جبکہ برسراقتدارطبقات نے اپنے بچوں کو یورپ اور امریکہ کی تعلیمی اداروں سے تعلیم دلواتے رہے اور قومی تقاضوں کو بالاےطاق دکھتے ہوے صرف سامراجی مفادات کی حصول اصل مقصد رہا۔ ان کی دیھکادیکھی پوری قوم نے یہ ٹھن لی ھم دوسرے ملکوں کے تعلیمی اداروں سے اپنے بچوں کو پڑھاۓ۔ کیونکہ عوام اپنے حکمرانوں کے مہذب پر ہوتے ہیں۔  لہذا آج ہر شحص کی حواہش ہے کہ اس کا بچہ کسی باہر ملک سے تعلیم حاصل کریں اور یو ہرسال قوم کا کثیر زرمبادلہ یورپ اور امریکہ منتقل ہورہا ہے اور اس میں  اضافہ ہوتا ہے۔ ان سطور میں یہ جاننے کی کوشش کی گی ہے کہ ہپ